the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
عامرمظہری قاسمی 
بہار میں الیکشن کی تاریخ آنے سے پہلے اور اب جو سب کو پریشان کیا ہوا ہے وہ ہیمسلم قیادت کی پہل کیوں کہ جب بے باق قائد اویسی نے کشن گنج میں ریلی کر کے اور سیمانچل میں الیکشن لڑنے کے اعلان سے نام نہاد سیکولڑ پارٹی اور فرقہ پرست پارٹی میں کھلبلی مچا دی ہے، تو مسلم قیادت کی اہمیت کو کم کرنے اور مسلم ووٹر کو منقسم کرنے کیے لیے ان موقع پرستوں نیطرح طرح کے الزام لگانا مسلم قیادت پر شروع کر دیا، کوئی کہتا ہے کہ اویسی کو بی جے پی لایا ہے اور اسے اسی کو فائدہ ہوگا کسی کی رائے ہے کہ اسے نام نہاد سیکولڑ پارٹی کا نقصان ہوگا اور مودی اور اویسی کی خوفیاملاقات ہوئی ہے جسے بی جے پی کا فائدہ ہوگا اور بہار میں بی جے پی کا کامیاب ہونا اچھا شگون نہیں گویا کہ وہ یہ کہنا چاتے ہیں کہ آپ کے متحد ہونے سے پرقہ پرست کو فائدہ ہوگا ۔ ان تمام باتوں پر سوچتا ہوں کہ جس ملت کی بنیاد ہی اتحادپرقائم ہو، اس قوم کے علماء اور دانشور یہ مشورہ دینا کہ آپ کا متحد ہونا، مخالف خیمہ کومتحد کرے گا۔ بھلا یہ کیسی فکر ہے کہ ہم اپنے زخموں کا علاج اس لئے نہ کریں کہ کہیں سامنے والا مردہ بھی اپنے زخموں کے علاج کے لئے زندہ ہوکر کھڑا نہ ہوجائے۔آج مسلمانوں سے بہترحالت میں دلت ہے۔ جیتن رام مانجھی اوررام ولاس پاسوان کی پارٹی الگ الگ ہے مگر جب وزیراعلیٰ کے عہدہ سے مانجھی کو ہٹانے کی بات چلی تو پاسوان وزیراعلیٰ مانجھی کی پیٹھ پر کھڑا ہوگئے۔ افسوس ہوتاہے کہ جو کام مسلم بھائیوں کوکرناتھا، وہ خصوصیت دوسری برادریوں نے اپنا لی ہے۔ علمائے کرام اوران سیاسی لیڈروں کی بے توجہی اورعدم دلچسپی نے آج مسلمانوں کوبدحالی کی آخری دہلیزپرپہنچا دیا ہے۔ اور اس وقت ہمارا ملک ہندوستان اپنی تاریخ کے نہایت سنگین دور سے گزر رہا ہے اور فاشسٹ طاقتیں جو ملک کے جمہوری کردار اور ہمہ مذہبی سیکولر روایات پر یقین نہیں رکھتیں ، بام اقتدار تک پہنچ چکی ہیں ، اور وہ ایسی طاقتوں کے زیر اثر ہیں جو کبھی اس ملک کے تئیں ہمدرد و بہی خواہ نہیں رہے، چنانچہ ایک طرف ملک کی غالب اکثریت غربت اور خط غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور تعلیم و صحت اور تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، دوسری طرف ملک کے باشندوں میں مذہبی بنیادوں پر باہم نفرت پھیلائی جا رہی ہے، تاکہ ملک کو درپیش اصل مسائل کی طر ف سے عوام کی توجہ ہٹ جائے اور ان کے مذموم مقاصد پورے ہو سکیں۔ اس لیے اب انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ حالات میں ایک مضبوط قیادت ہی مسلمانوں کے درد کا درماں بن سکتی ہے ، ایک ایثار پیشہ، بے لوث قیادت ہی ان میں بیساکھیوں کی بجائے اپنے پاوء4 ں پر آپ کھڑے ہونے کے ذوق جنوں کی آبیاری کرسکتی ہے ، نامساعد حالات کے سامنے سپرانداز ہوتے چلے جانے کے بجائے ان میں ان سے پنجہ آزمائی کی خفیہ اہلیت کو بیدارکرنے کی کوشش کرسکتی ہے اور جو کچھ کھو گیا ہے اس کی بازیافت کا ولولہ بھی پیدا کرسکتی ہے؛ لیکن یہ خواب کل بھی تعبیر سے تہی تھا، آج بھی اس کی خوش کن تعبیر حقیقت کا روپ دھارنے سے گریزاں نظر آرہی ہے ؛ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مسلمانوں میں ایک مضبوط اور ایثار پیشہ قیادت ابھر ہی نہیں سکتی، یہ ناممکن نہیں ہے ، وہ وقت ضرور آئے گا ، جب ہم اور آپ اس خواب کو حقیقت بنتا دیکھیں گے، آواز وہی باوزن کہلاتی ہے جو اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کے ایوانوں میں گونجتی ہے جو اخباروں کے صفحات میں پڑھی اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں سنی جاتی ہے ، مسلمانوں کو اپنی سیاسی تنظیم کے ذریعہ اپنی آواز میں یہ وزن پیدا کرنا ہوگا ، یہی وہ راستہ ہے جو انھیں حقوق کی بازیافت اور عزت و توقیر کی منزل مراد تک پہنچا جاسکتا ہے‘‘ کیوں کہ
سماجی نفسیات کی بحثوں میں کنٹرول کے اندرونی منبع Internal Locus of Control کوارتجاعیت کا اہم وصف سمجھاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنا چارج خود لیں۔ ہم یہ مان لیں کہ ہماری ساری کمزوری صرف ہماری اپنی وجہ سے ہے۔ہم تعلیم میں پیچھے ہیں، ہماری معیشت کمزور ہے، جیلوں میں زیادہ ہمارے لوگ ہیں، سیاست میں ہمارا وزن نہیں ہے، میڈیا میں ہمارے موقف کی نمائندگی نہیں ہوتی تو ان سب کے اسباب حکومت کی پالیسیوں،دوسروں کی عصبیتوں، فلاں فلاں کی سازشوں وغیرہ دیکھنے کی بجائے ہم اپنے اندر تلاش کریں۔ ہم یہ مان لیں کہ ان سب کے لئے سب سے زیادہ ہم خود، ہماری قیادت، ہمارے خواصElites، ہماری تنظیمیں اور ہمارا معاشرہ ذمہ دار ہے۔"اللہ تعالی کسی قوم کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلے۔‘
کیوں کہ نئے سیاسی حالات کا ایک مثبت پہلو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان سے ان شاء اللہ مسلمان ان نقلی بیساکھیوں کو اتار پھینکیں گے جنہوں نے انہیں مصنوعی طور پر معذور بنا رکھا تھا۔ سیکولر سیاسی جماعتوں پر انحصار، اپنے مسائل کے حل کے لئے حکومتوں سے توقعات،گداگری، مطالبات و احتجاجات کی سیاست نے ہماری سماجی قوت کو بتدریج کمزور کیا ہے۔ بے شک اس ملک کے شہری کی حیثیت سے یہاں کے وسائل میں ہمارا حق ہے اور ہمیں اپنا حق حاصل کرنا چاہیے۔ لیکن حق حاصل کرنے کی اس کوشش کیدوران ہمیں اپنی اجتماعی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوجانا چاہیے اور نہ اِس عمل کو ہماری کمزوری کا سبب بننا چاہیے۔جس دن ہم اپنے مسائل کے لئے خود کو ذمہ دار سمجھیں گے اور ان کے حل کا پورا چارج خود لیں گے، وہ ترقی اور کامیابی کی شاہراہ پر ہمارا پہلا قدم ہوگا۔اپنی کسی ناکامی کے لئے دوسروں کو ذمہ دار قرار دینے کا رویہ دراصل راہ فرار ہے۔ جو فرد یا قوم اس راہ فرار کی عادی ہوجاتی ہے وہ کبھی کامیابی کا سرا نہیں پاسکتی۔ ایک کامیاب فرد، اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ اس کے اسباب، بیرون سے زیادہ اپنے اندرون میں تلاش کرتا ہے۔ بیرونی احوال اس کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ اس لئے انہیں وہ خدا کے سپرد کردیتا ہے البتہ



اندرونی احوال پر اس کا کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ ان کی اصلاح کرتا ہے۔ زیادہ قوت اور زیادہ دانشمندی کے ساتھ پھر کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ کامیاب ہوجاتا ہے۔جبکہ ایک ناکام فرد ، اپنی ناکامی کا سارا بوجھ دوسروں پر ڈال کر مطمئن ہوجاتا ہے۔ ناکامی کے بعد، لاحاصل ماتم اور احتجاج کے سوا اس کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ یہی معاملہ قوموں کا بھی ہوتا ہے۔ ہندستانی مسلمانوں کی حالیہ تاریخ میں اس ماتمی اور احتجاجی رویہ کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ ہند کے اس مزاج کی اصلاح کی مہم چلے۔ ہماری توانائیوں اور قوتوں کا بڑا حصہ رد عمل پر مبنی امورReactive Issues کی بجائے اقدامی امور Proactive Issuesپر صَرف ہو۔اور اس کے لیے اسباب وعلل اور کثرت عدد کا نہ ہونا کوئی معنی نہیں کیوں کہ کامیابی کا مدار کثرت عدد یا اسباب ووسائل کی زیادتی پر نہیں بلکہ یہ بلند حوصلہ، آہنی عزائم، فولادی ارادے، بہتر تنظیم اور حصول مقصد کے لیے جان وتن کو داؤ پر لگادینے پر موقوف ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد باری ہے: "بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعت پر خدا کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں "{بقرہ _249} مقصد کے لئے مرمٹنے کا نشہ جب دل ودماغ پر چھا جاتا ہے،عقابی روح سینے میں بیدار ہوتی ہے اور انسان موت سے آنکھیں چرانے کے بجائے اس سے آنکھیں چار کرنے کی جرات رندانہ اپنے اندر پیدا کر لیتا ہے، تو کامیابی وکامرانی کے در اس کے لیے کھلتے چلے جاتے ہیں، فتح ونصرت بڑھ کے اسے گلے لگاتی ہے، اسباب وعلل کی کڑیاں جرتی جاتی ہین، اور ایسی ایسی ان ہونی پیش آتی ہے کہ انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے، موت کو چھلانگ زندگی کا سامان بن جاتی ہے، جغرافیہ بدلتا ہے، تاریخ کے دھارے مرتے ہیں تھذیب و ثقافت کے نئے باب رقم ہونے لگتے ہیں، اور یہ تاریخ کے ہر دور میں ہر قوم کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا، غزوہ بدر، فتح مکہ فتح اندلس معرکہ قادسیہ اور غزہ کی حالیہ مزاحمت بھی اس کی شاندار کڑی ہے، لیکن جب الیکشن کا وقت آتا ہے تو مسلمان وہ جوش وجذبے کا اظہارکرتے ہیں کہ جیسے ہندوستان کا سیاسی مستقبل اور سیاسی جماعتوں کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں ہے۔جب کہ پانچ سال تک وہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں ان سے جو وعدہ کرتی ہیں وہ پورا نہیں کرتیں احساس کمتری اور احساس برتری کی یہ دھوپ اور چھاؤں صرف اس لئے ہے کیونکہ ان کا اپنا کوئی مستقل قیادت اور نہ موقف اور نہیں نصب العین ہے۔کیوں کہ آزادی کے بعد مسلم قیادت مسلم مسائل پر خاموشی اختیار کرتی رہی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں نے بے پناہ حمایت دے کر وقت وقت پر مسلم رہنماؤں کوطاقت بخشی۔ ایم پی ، ایم ایل اے، ایم ایل سی ، نگم ، بورڈوں کے چیئرمین کے عہدوں پرفائز ہونا ہی مسلم مسائل کاحل نہیں۔مسلمانوں کواس کے لئے الگ سے محاذ اور مسلم قیادت والی پارٹی کومضبوط کرنے کی ضرورت ہے بلکہ مسلمان اورپسماندہ طبقوں کا ایک پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو اپنی سیاسی پہچان کے لئے پوری قوت سے انتخاب میں اترنا ہوگا۔ اس سوچ کو درکنار کر کہ اس کا فائدہ اور نقصان کس کو ہوسکتا ہے۔ ریاست کی 17فیصد مسلم آبادی ہی گرمتحدہوجائے تو سیاسی رخ بدلا جاسکتا ہے۔ ہمارے دم پر گٹھ بندھن کی ریکھا کھینچی جارہی ہے توہم خود سیاست کے علمبردارکیوں نہیں بن سکتے؟لیکن ان موقع پرست اور مصلحت پرست {بزدل} لیڈر اور سیاسی بازی گروں کو یہ احساس زیاں تک نہیں ہے ان کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ معمولی سے مفاد کے خاطر اپنی غیرت و حمیت اور دین و ملت کے مفاد کو سر عام نیلام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں، اگر وہ غیروں کی چاپلوسی اور قدم بوسی کے سہارے جیون کے نیا کھینے کے بجائے اپنے دست بازو کے سہارے جینے کا یارا اپنے اندر پیدا کر لیں غلامانہ ذہن کی پستی اپنے وجود کو لتھر نے کے بجائے احرار کی مستی اپنے انگ انگ میں دورادیں، اللہ پر توکل اور اپنے بازو پر بھروسہ کرکے اٹھ کھڑے ہوں، جو بھی اسباب ووسائل فراہم ہوں ان سے کام لینا سیکھیں، تو جلد یا دیر فتح و نصرت سے یقینی طور پر ہمکنار ہوں گے، اور ان کا مقدر بن جانے والی تیرگی شب یقینی طور پر سحر سے تبدیل ہو جائے گا ۔ یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ کیرالا میں مسلم لیگ اور تلنگانہ میں مجلس اتحادالمسلمین کی سیاسی قوت کی وجہ سے ان دونوں ریاستو ں کے مسلمان ہر لحاظ سے بلکہ ملک کی دوسری ریاستو ں کے مسلمانوں سے خاصی بہتر اور مستحکم حالت میں ہیں۔مسلمانوں کی سیاسی جماعت کو مسلمانوں کے لئے نامناسب بلکہ خطرناک اور فرقہ پرستی میں اضافہ کا سبب بتانے والوں کی وجہ سے مسلمانوں کی عمومی حالت ملک بھر میں پسماندہ رہی ہے۔ کانگریس اور نام نہاد سیکولرجماعتوں کے رحم و کرم پر ہونے کی وجہ سے ہی حالت ناگفتہ سے ناگفتہ تر ہوتی رہی ہے۔ کیرالا میں یہ مولوی محمد اسمٰعیل کی غیر معمولی ہمت و جر?ت تھی کہ ہندوستان میں محدود طور پر سہی مسلم لیگ کا وجود برقرار رہا۔ اسی طرح حیدرآباد میں موجودہ مجلس کے صدر اسد الدین اویسی کے دادا مرحوم عبدالواحد اویسی کی نہ صرف ہمت و جر?ت بلکہ ولولہ انگیز قیادت تھی جس کی وجہ سے سقوط حیدرآباد کے تقریباً دس سال بعد مرحوم ،مجلس اتحادالمسلمین کا حیاء کرسکے جس کے بعد میں ان کے فرزند سلطان صلاح الدین اویسی (سالارملت ) نے اس کونہ صرف جاری رکھا بلکہ ایم آئی ایم کو مستحکم کیا اور اب اویسی برادران ایم آئی ایم کو حیدرآباد یا تلنگانہ سے باہر فروغ دے رہے ہیں۔ اسی طرح آسام میں مولانا اجمل کا یوڈی ایف کا تجربہ بھی کامیاب رہا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی علحدہ سیاسی جماعت کی ضرورت، اور مقصد، مسلم جماعت کے قیام کے فائدے اور نقصانات وغیرہ کافی پیچیدہ مسائل ہیں۔ ان پر بہ یک جنبش قلم فیصلہ صادر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ملک کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورت حال میں سب سے زیادہ پریشانی اور مسائل مسلمانوں کے لئے پیدا ہوگئے ہیں۔
(مضمون نگار دارالعلوم سبیل الفلاح جالے کے استاد ہیں) 
(بصیرت فیچرس)
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.